Urdu

بسم اللہ الرحمن الرحیم و الحمد للہ رب العالمین و صلی اللہ علی محمّد و آلہ الطاھرین اشتیاق و احترام کے ساتھ درود و سلام ہو آپ خوش نصیبوں پر جو دعوت قرآنی پر صدائے لبیک بلند کرتے ہوئے ضیافت پروردگار کے لئے آگے بڑھے۔ پہلی بات یہ کہ اس عظیم نعمت کی قدر

بسم اللہ الرحمن الرحيم

و الحمد للہ رب العالمين و صلي اللہ علي محمّد و آلہ الطاھرين

اشتياق و احترام كے ساتھ درود و سلام ہو آپ خوش نصيبوں پر جو دعوت قرآني پر صدائے لبيك بلند كرتے ہوئے ضيافت پروردگار كے لئے آگے بڑھے۔ پہلي بات يہ كہ اس عظيم نعمت كي قدر كيجئے اور اس بے مثال واجب كے انفرادي، سماجي، روحاني اور عالمي پہلوؤں پر تدبر كے ساتھ، اس كے اہداف سے خود كو قريب كرنے كي كوشش كيجئے اور رحيم و قدير ميزبان سے اس سلسلے ميں مدد مانگئے۔ ميں بھي آپ كے جذبات سے اپنے جذبات اور آپ كي آواز سے اپني آواز ملا كر پروردگار غفور و منان كي بارگاہ ميں دعا كرتا ہوں كہ اپني نعمتيں آپ پر مكمل كر دے اور جب سفر حج كي توفيق عطا فرمائي ہے تو كامل حج ادا كرنے كي توفيق بھي عنايت فرمائے اور پھر سخاوت مندانہ انداز ميں شرف قبوليت عطا كركے آپ كو بھرے دامن اور مكمل صحت و عافيت كے ساتھ اپنے اپنے ديار كو لوٹائے، ان شاء اللہ ۔

ان پر مغز اور بے نظير مناسك كے موقع پر روحاني و معنوي طہارت و خود سازي كے ساتھ ہي جو حج كا سب سے برتر اور سب سے اساسي ثمرہ ہے، عالم اسلام كے مسائل پر توجہ اور امت اسلاميہ سے متعلق اہم ترين اور ترجيحي مسائل كا وسيع النظري اور دراز مدتي نقطہ نگاہ سے جائزہ، حجاج كرام كے فرائض اور آداب ميں سر فہرست ہے۔

آج ان اہم اور ترجيحي مسائل ميں سے ايك، اتحاد بين المسلمين، اور امت اسلاميہ كے مختلف حصوں كے درميان فاصلہ پيدا كرنے والي گرہوں كو كھولنا ہے۔

حج، اتحاد و يگانگت كا مظہر اور اخوت و امداد باہمي كا محور ہے۔ حج ميں سب كو اشتراكات پر توجہ مركوز كرنے اور اختلافات كو دور كرنے كا سبق حاصل كرنا چاہئے۔ استعماري سياست كے آلودہ ہاتھوں نے بہت پہلے سے اپنے مذموم مقاصد كے حصول كے لئے تفرقہ انگيزي كو اپنے ايجنڈے ميں شامل كر ركھا ہے، ليكن آج جب اسلامي بيداري كي بركت سے، مسلمان قوميں استكباري محاذ اور صيہونزم كي دشمني كو بخوبي بھانپ چكي ہيں اور اس كے مقابل اپنا موقف طے كر چكي ہيں، تو مسلمانوں كے درميان تفرقہ انگيزي كي سياست ميں اور بھي شدت آ گئي ہے۔ عيار دشمن اس كوشش ميں ہے كہ مسلمانوں كے درميان خانہ جنگي كي آگ بھڑكا كر، ان كے مجاہدانہ اور مزاحمتي جذبے كو انحرافي سمت ميں موڑ دے اور صيہوني حكومت اور استكبار كے آلہ كاروں كے لئے، جو اصلي دشمن ہيں، محفوظ گوشہ فراہم كر دے۔ مغربي ايشيا كے ملكوں ميں دہشت گرد تكفيري تنظيموں اور اسي طرح كے دوسرے گروہوں كو وجود ميں لانا اسي مكارانہ پاليسي كا شاخسانہ ہے۔

يہ ہم سب كے لئے انتباہ ہے كہ ہم اتحاد بين المسلمين كے مسئلے كو آج اپنے قومي اور عالمي فرائض ميں سر فہرست قرار ديں۔

دوسرا اہم معاملہ مسئلہ فلسطين ہے۔ غاصب صيہوني حكومت كي تشكيل كے آغاز كو 65 سال كا عرصہ بيت جانے، اس كليدي مسئلے ميں گوناگوں نشيب و فراز آنے اور خاص طور پر حاليہ برسوں ميں خونيں سانحے رونما ہونے كے بعد دو حقيقتيں سب كے سامنے آشكارا ہو گئيں۔ ايك تو يہ كہ صيہوني حكومت اور اس كے جرائم پيشہ حامي، سنگدلي، درندگي اور انساني و اخلاقي اصول و معيارات كي پامالي ميں كسي حد پر ركنے كے قائل نہيں ہيں۔ جرائم، نسل كشي، تباہ كن اقدامات، بچوں، عورتوں اور بےكس و بے آسرا لوگوں كے قتل عام اور ہر ظلم و جارحيت كو جو وہ انجام دے سكتے ہيں، وہ اپنے لئے مباح اور جائز سمجھتے ہيں اور اس پر فخر بھي كرتے ہيں۔ حاليہ پچاس روزہ جنگ غزہ كے اندوہناك مناظر، ان تاريخي مجرمانہ اقدامات كي تازہ ترين مثال ہيں جو گزشتہ نصف صدي كے دوران بار بار دہرائے جاتے رہے ہيں۔

دوسري حقيقت يہ ہے كہ يہ سفاكي اور يہ انساني المئے بھي غاصب صيہوني حكومت كے عمائدين اور ان كے حاميوں كے مقاصد پورے نہ كر سكے۔ خبيث سياست باز، صيہوني حكومت كے لئے اقتدار اور استحكام كي جو احمقانہ آرزو دل ميں پروان چڑھا رہے ہيں، اس كے برخلاف يہ حكومت روز بروز اضمحلال اور نابودي كے قريب ہوتي جا رہي ہے۔ صيہوني حكومت كي طرف سے ميدان ميں جھونك دي جانے والي ساري طاقت كے مقابلے ميں محصور اور بے سہارا غزہ كي پچاس روزہ استقامت، اور آخر كار اس حكومت كي ناكامي و پسپائي اور مزاحمتي محاذ كي شرطوں كے سامنے اس كا جھكنا، اس اضمحلال، ناتواني اور بنيادوں كے تزلزل كي واضح علامت ہے۔

اس كا يہ مطلب ہے كہ؛ ملت فلسطين كو ہميشہ سے زيادہ پراميد ہو جانا چاہئے، جہاد اسلامي اور حماس كے مجاہدين كو چاہئے كہ اپنے عزم و حوصلے اور سعي و كوشش ميں اضافہ كريں، غرب اردن كا علاقہ اپني دائمي افتخار آميز روش كو مزيد قوت و استحكام كے ساتھ جاري ركھے، مسلمان قوميں اپني حكومتوں سے فلسطين كي حقيقي معني ميں پوري سنجيدگي كے ساتھ مدد كرنے كا مطالبہ كريں اور مسلمان حكومتيں پوري ايمانداري كے ساتھ اس راستے ميں قدم ركھيں۔

تيسرا اہم اور ترجيحي مسئلہ دانشمندانہ زاويہ نظر كا ہے جسے عالم اسلام كے دردمند كاركن حقيقي محمدي اسلام اور امريكي اسلام كے فرق كو سمجھنے كے لئے بروئے كار لائيں اور ان دونوں ميں خلط ملط كرنے كے سلسلے ميں خود بھي ہوشيار رہيں اور دوسروں كو بھي خبردار كريں۔ سب سے پہلے ہمارے عظيم الشان امام (خميني رضوان اللہ تعالي عليہ) نے ان دونوں كے فرق كو واضح كرنے پر توجہ دي اور اسے دنيائے اسلام كے سياسي لغت ميں شامل كيا۔ خالص اسلام، پاكيزگي و روحانيت كا اسلام، تقوي و عوام كي بالادستي كا اسلام، مسلمانوں كو كفار كے خلاف انتہائي سخت اور آپس ميں حد درجہ مہربان رہنے كا درس دينے والا اسلام ہے۔ امريكي اسلام، اغيار كي غلامي كو اسلامي لبادہ پہنانے والا اور امت اسلاميہ سے دشمني برتنے والا اسلام ہے۔ جو اسلام، مسلمانوں كے درميان تفرقے كي آگ بھڑكائے، اللہ كے وعدوں پر بھروسہ كرنے كے بجائے دشمنوں كے وعدوں پر اعتماد كرے، صيہونزم اور استكبار كا مقابلہ كرنے كے بجائے مسلمان بھائيوں سے بر  سر پيكار ہو، اپني ہي قوم يا ديگر اقوام كے خلاف امريكا كے استكباري محاذ سے ہاتھ ملا لے، وہ اسلام نہيں، ايسا خطرناك اور مہلك نفاق ہے جس كا ہر سچے مسلمان كو مقابلہ كرنا چاہئے۔

بصيرت آميز اور گہرے تدبر كے ساتھ ليا جانے والا جائزہ، عالم اسلام ميں ان حقائق اور مسائل كو حق كے ہر متلاشي كے لئے آشكارا كر ديتا ہے اور كسي بھي شك اور ابہام كي گنجائش نہ ركھتے ہوئے فريضے اور ذمہ داري كا تعين كر ديتا ہے۔

حج، اس كے مناسك اور اس كے شعائر، اس بصيرت كو حاصل كرنے كا بہترين موقع ہيں۔ اميد ہے كہ آپ خوش نصيب حجاج كرام اس عطيہ خداوندي سے مكمل طور پر بہرہ مند ہوں گے۔

آپ سب كو اللہ كي پناہ ميں ديتا ہوں اور بارگاہ خداوندي ميں آپ كي مساعي كي قبوليت كي دعا كرتا ہوں۔

و السلام عليكم و رحمۃ اللہ

سيد علي خامنہ اي

پنجم ذي الحجہ 1435 (ہجري قمري) مطابق، 8 مہر 1393 (ہجري شمسي)

 

 

 


| شناسه مطلب: 12739




Urdu